محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں خودعبقری رسالہ انتہائی شوق سے پڑھتا ہوں۔ انسان کی زندگی میں طرح طرح کے واقعات، حالات، قصے، کہانیاں رونما ہوتے ہیں بعض ناقابل فراموش ہوتے ہیں۔ بہرحال میں ناقابل فراموش کہانی عبقری کے محترم قارئین کے نام لکھ رہا ہوں۔ انشاء اللہ محترم قارئین عبقری کو پسند آئے گی۔ 1996ء میں پارا چنار کے حالات کی وجہ سے ہم سب گھر والے ٹل سٹی میں رہائش کرنے لگے۔ میرا پیشہ ڈرائیوری تھا‘ میں پارا چنار، پشاور اور بعد میں صرہ، ٹل وغیرہ میں کوچ چلاتا تھا۔ میری یہ عادت تھی جب کبھی مستری گاڑی میں کام کرتا تو میں ضرور گاڑی کی خود صفائی کرتا‘ سروس کراتا‘ اگر مجھے فرصت ہوتی تو خود کہیں پانی والی جگہ لے جاتا اور صفائی کرتا تاکہ کسی سواری کے کپڑے وغیرہ گندے نہ ہوجائیں۔ اس روز مستری سے فارغ ہوکر گھر آکر کوچ کو صاف کرنے کیلئے دریائے کرم لے جانے کیلئے پروگرام بنایا۔ ٹل سٹی کے نزدیک ٹل روڈ پر تھوڑے فاصلے پر تورپل کے نزدیک مغرب سائیڈ دریائے کرم بہتا نظر آتا ہے۔ یہ پانی ٹل سے جاتے ہوئے علاقہ بنوں میں ختم ہوجاتا ہے۔ میرے ساتھ میرے بھائی جن کی عمر 25 سال‘ بیٹی عمر 8 سال‘ بیٹا عمر 6 سال‘ بیٹا عمر4 سال۔ دریائے کرم جانے کیلئے اصرار کرنے لگے۔ مغرب کی اذان کوتقریباً گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے اور ان کی والدہ نے کہا وقت کم ہے‘ آپ سب نہ جائیں کیونکہ گرمی کے ایام میں دریا تیزہوکربربادی کرجاتا ہے یہ سب ضد کرنے لگے۔ ان سب کو لے کر میں نے کوچ کو کم بہاؤ والے پانی میں کھڑی کی اور دریا کے زیادہ بہاؤ والے پانی سے کچھ فاصلے پر رہا۔ میں نے اپنے بھائی کو تاکید کی کہ آپ میرے دونوں بیٹوں کا خیال رکھیں اور بیٹی کو کہا کہ آپ میرے ساتھ مدد کریں‘ پانی کے گیلن کو جلدی جلدی بھر کر مجھے دیں تاکہ میں کوچ کو جلدی سے صاف کرلوں کیونکہ وقت بہت کم ہے۔ وقت گزرتا گیا مغرب کی اذان کو تقریباً پندرہ، بیس منٹ باقی تھے‘ اسی دوران بیٹی جو گیلن میں مجھ تک پانی لاتی اور میں کوچ پر ڈالتا۔ اچانک اس کے منہ سے ایک خطرناک چیخ نکلی میں نے جب اس کی طرف دیکھا‘ ایک پاؤں اٹھاتی ہوئی خون میں لت پت تھی‘ میں جلدی وہاں پہنچا۔ دیکھا کیکر کے درخت کا ایک بڑا کانٹا اس کے پاؤں کی ایڑی میں گھس گیا ہے میں نے فوراً نکالا اور یہ فکر کرتے ہوئے کہ کہیں کسی اور جاندار کو تکلیف نہ ہوجائے وہاں پر ایک بڑا پتھر ہٹا کر اس کے نیچے کانٹے کو دفنا دیا۔ میں بیٹی کے زخمی پاؤں کی فکر میں سرگرداں تھا اسی اثنا میں میرا بڑا بیٹا آگیا اور کہا میرا چھوٹا بھائی نہیں ہے۔ مغرب کی اذان شروع ہوچکی تھی شام کے سائے چھانے لگے تھے۔ ان کی ماں بھی کہہ رہی تھی کہ ان کو دریا پر نہ لے جائیں کیونکہ وقت بہت کم ہے۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کی طرف دیکھا گھبرایا ہوا کھڑا تھا‘ میں نے بچے اس کے حوالے کیے تھے‘ میں نے اس کے ساتھ مزاحمت‘ تکرار میں وقت ضائع نہیں کیا۔ پھر رات کا اندھیرا چھا گیا تھا۔ میں انتہائی پریشانی میںبیٹھ گیا مجھے کچھ سمجھ نہ آرہا تھا‘ ان کی ماں کا خیال آیا تو اور گھبرا گیا اس کوکیا جواب دوں گا؟ دریا کی طرف اردگرد آنکھوں سے خوب جائزہ لیا۔ تقریباً پندرہ بیس گز فاصلے پر ایک سیاہ دھبہ پانی میں تیرتا ہوا نظر آیا۔ میں نے دوڑ لگائی‘ اللہ کا نام لےکر وہاں پہنچ گیا۔ میرے بیٹے کو دریا کبھی اوپر اور کبھی نیچے ڈوبا رہا تھا۔ میں نےاس کو پکڑلیا‘ اگر تھوڑا وقت ضائع کرتا‘ دریا کا زیادہ بہاؤ والا پانی اس سے تھوڑے فاصلہ پر تھا۔ خدانخواستہ اگر یہ وہاں گرجاتا پانی اس کو وہاں لے جاتا پھر اس کا ڈھونڈنا ناممکن ہوجاتا۔ اللہ رب العزت نے بہت مدد کی‘ اس کو اللہ نے دوبارہ زندگی دی۔ میرا بچہ بالکل صحیح سلامت تھا۔ میرا بڑا بیٹا کہہ رہا تھا مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آیا کہ کب غائب ہوگیا البتہ اتنا معلوم ہے کہ ہم ایک دوسرے کو کنکر ماررہے تھے۔ وہ کچھ دیر بے سدھ پڑا رہا اور تھوڑی ہی دیر بعد اس کے اوسان بحال ہوئے اور یہ بالکل ٹھیک ہوگیا۔ اب الحمدللہ سیکنڈ ایئر کا طالب علم ہے۔ اللہ رب العزت نے اس کو اس وقت نئی زندگی دی ورنہ یہ تو موت کے منہ میں چلا گیا تھا۔ بے شک قدرت کے کھیل کچھ زیادہ ہی نرالے ہوتے ہیں۔ محترم قارئین! مجھے اپنی دعاؤں میں شامل رکھیے گا‘ شاید اس کہانی سے کسی کو سبق حاصل ہوجائے کیونکہ معمولی غفلت سے آپ کا کوئی اپنا آپ سے بچھڑ سکتا ہے پھر عمر بھر غم برداشت کرنا پڑتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں